کتاب باب آیت

متّی 12

 12

 یسُوعؔؔ سبَت کا مالک:

  1 ایک سبَت کے دن یسُو عؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ کھیت میں سے گُزر رہاتھا اور اُس کے شاگردوں کو بھُوک لگی تو وہ کھیت سے بالیاں توڑ توڑ کر کھانے لگے۔  2 جب کچھ فریسیوں نے دیکھا تو یسُوعؔ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ تیرے شاگرد وہ کام کر رہے ہیں جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں۔  3 اِس پر یسُوعؔ نے یہ جواب دیا،  ”کیا تُم نے کلام میں کبھی نہیں پڑھا کہ جب داؤدؔ اور اُس کے ساتھی بھُوکے تھے تو اُس نے کیا کِیا؟   4  ”وہ خداکے گھر میں گیا تو اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے شریعت کے حُکم کے خلاف نذر کی روٹیاں کو کھائیں جنہیں کھانے صرف کاہنوں کو روا تھا۔   5  ”کیا تُم شریعت میں نہیں پڑھتے کہ کاہن جو ہر سبَت کو ہیکل میں خدمت کرتے ہیں، سبَت کے حُکم کوتوڑتے ہیں پھر بھی بے قصُور رہتے ہیں۔   6  ”میں تُم سے کہتا ہوں یہاں وہ ہے جو ہیکل سے بھی بڑا ہے۔   7  ”اگر تُم کلام کی اِن باتوں کو سمجھتے تو جانتے کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور بے قصُوروں کو مُجرم نہ ٹھہراتے۔   8  ”کیونکہ اِبنِ آدم سبَت کا مالک ہے۔“

 سبَت کے دن شِفا کا کام:

  9 وہاں سے وہ اُن کے عبادت خانے میں گیا۔  10 وہاں اُسے ایک آدمی نظر آیا جس کا ہاتھ سُوکھا ہوا تھا۔ وہاں موجود فریسیوں نے یسُوعؔ پر الزام لگانے کے اِرادے سے اُس سے پُوچھا کہ کیا شریعت سبت کے دن شفا دینے کی اجازت دیتی ہے؟  11 اُس نے جواب میں اُن سے پُوچھا،  ”اگر کسی کی ایک بھیڑ ہو اور سبَت کے دن وہ گڑھے میں گر جائے تو کیا وہ اُسے گڑھے میں سے نہ نکالے گا؟   12  ”اِس لئے بھیڑ کی قدر تو انسان سے بہت ہی زیادہ ہے۔ اِس لئے سَبت کے دن نیکی کرنا جائز ہے۔“

  13 یسُوؔع نے اُس آدمی سے کہا،  ”اپنا ہاتھ بڑھا۔“ جب اُس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تووہ دُوسرے ہاتھ کی طرح بالکل ٹھیک ہو گیا۔  14 فریسی عبادت خانے سے باہر جا کر یسُوعؔ کو مار ڈالنے کا مشورہ کرنے لگے۔

  15 جب یسُوع ؔ کو اُن کے منصوبوں کا پتا چلا تو وہاں سے چلا گیا اور بُہت سے لوگ اُس کے پیچھے ہو لیے اُس نے اُن میں سب بیماروں کو اچھا کر دیا۔  16 مگر اُنہیں تاکید کی کہ ”کسی کو میرے بارے میں نہ بتانا۔“

  17 یوں یسعیاہ ؔنبی جو پیشن گوئی کی تھی پوری ہوئی کہ:

  18 ”دیکھویہ میرا خادم ہے جِسے میں نے چُنا۔ میرا پیاراجس سے میرا دل خُوش ہے۔
 میں اپنی رُوح اُس پر نازل کروں گا وہ غیر قوموں کو انصاف کی خبر دے گا۔
  19 نہ جھگڑے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازار میں اُونچی آواز میں بولے گا۔
  20 وہ کسی کمزور گھاس کے خُشک تنکے کو نہ کُچلے گا۔ اور نہ بجھتی ہوئی بتّی کو بجھا ئے گا۔
 جب تک کہ انصاف غالب نہ آئے۔
  21 اور اُس کے نام سے غیر قومیں اُمید رکھیں گی۔“ (یسعیاہؔ۴۲: ۱-۴)

  22 اُس وقت ایک آدمی کو اُس کے پاس لائے جس میں بدرُوح تھی وہ اندھا اور گونگا تھا۔ یسُوعؔ نے اُسے اچھاکر دیا اور وہ دیکھنے اور بُولنے لگا۔  23 یہ دیکھ کرسب حیران ہوئے اور کہنے لگے، ”شاید یہی اِبن داؤدؔ ہو؟“  24 فریسیوں نے یہ سُن کر کہنا شروع کیا کہ وہ بد رُوحوں کو بعلز بُول کی مدد سے نکالتا ہے جو بدرُوحوں کا سردار ہے۔

  25 یسُوعؔ کو پتا تھا کہ وہ کیا سوچتے ہیں اِس لیے اُن سے کہا  ، ”جس بادشاہت میں پھوٹ پڑ جائے وہ تباہ ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھرانے میںاتفاق نہ ہو وہ قائم نہیں رہ سکتا۔   26  ”اگر شیطان ہی شیطان کو نکال رہا ہے تو وہ خُود اپنا ہی مخالف ہوگیا۔ اِس طرح تو اُس کی بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی۔   27  ”اگر میں بعلز بُول کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہوں تو تُمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکلتے ہیں؟   28  ”اور اگر میںخُدا کی مدد سے بدرُوحوں کونکالتا ہوں تو جان لو کہ خُدا کی بادشاہی تُمہارے پاس آ پہنچی ہے۔   29  ”کون اتنا طاقت ور ہے کہ کسی زورآور کے گھر میں گھُس کراُس کا مال لو ٹ لے جب تک کہ پہلے اُسے باندھ نہ لے؟   30  ”پس جو کوئی میرے ساتھ نہیں وہ میرے خلاف ہے اور جو کوئی میرے ساتھ مل کر کام نہیں کرتا وہ میرے خلاف کام کرتا ہے۔   31  ”اِس لیے میں تُم سے کہتا ہوں لوگوں کاہر گُناہ اور کُفر معاف کیا جائے گا مگر پاک رُوح کے خلاف معاف نہ کیا جائے گا۔   32  ”اگر کوئی اِبنِ آدم کے خلاف بات کہے گا وہ معاف کیا جائے لیکن اگر کوئی پاک رُوح کے خلاف کچھ کہے گا معاف نہیں کیا جائے گا۔ نہ اِس جہاں میں نہ آنے والے جہاں میں۔   33  ”درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے۔   34  ”اَے سانپ کے بچو! تُم بُرے ہو کر اچھی باتیں کیونکر کر سکتے ہو۔ کیونکہ جو کچھ تُمہارے دل میں ہے وہی تُمہارے مُنہ سے نکلتا ہے۔   35  ”اچھا آدمی دل کے اچھے خزانے سے اچھی باتیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے دل سے بُری باتیں نکا لتا ہے۔   36  ”لہٰذامیں تُم سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن ہر نکمی بات جو لوگ کہیں گے اُس کا حساب لیا جائے گا۔   37  ”کیونکہ تُو اپنی باتوں ہی کے سبب راستباز ٹھہرے گا اور اپنی ہی باتوں سے گنہگار ٹھہرے گا۔“

 یُونا ہ ؔکا نشان:

  38 ایک دن چند شریعت کے اُستادوں اور فریسیوں نے یسُوعؔ کے پاس آ کر کہا کہ اے اُستاد! ہمیں کوئی نشان دِکھا تاکہ پتہ چل سکے کہ توُکس اختیار سے یہ کام کرتا ہے۔  39 یسُوعؔ نے اُنہیں جواب دیتے ہوئے کہا،  ”یہ بُری اور زناکار پُشت نشان دیکھنا چاہتی ہے مگر اِنہیں یوناہ ؔ نبی کے نشان کے علاہ کوئی اور نشان نہ دیا جائے گا۔   40  ”جیسے یوناہؔ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی اِبنِ آدم تین دن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا۔   41  ”نینوہؔ کے لوگ عدالت کے دن کھڑے ہوکر اِس پُشت کے لوگوں کو مُجرم ٹھہرائیں گے۔ کیونکہ یوناہؔ کی منادی پر تواُنہوں نے توبہ کر لی تھی مگر دیکھویہاں وہ ہے جو یوناہؔ سے بھی بڑا ہے۔   42  ”جنوب کی ملکہ بھی عدالت کے دن اِس پُشت کے لوگوں کو مُجرم ٹھہرائے گی کیونکہ وہ دُور سے سلیمانؔ کی حکمت کو سُننے آئی تھی مگردیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان ؔسے بھی بڑا ہے۔

  43  ”جب کوئی ناپاک رُوح کسی آدمی میں سے نکلتی ہے تو ویران مقاموں پر آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور آرام نہیں پاتی۔

  44  ”تب وہ کہتی ہے کہ میں اپنے پرانے گھرواپس جاؤں گی اور آکر اُسے خالی اور اپنے رہنے کے لیے تیار پا کر۔   45  ”اپنے سے بھی بُری سات اور بدرُوحیں اپنے ساتھ لے آتی ہے اور اُس آدمی میں گھُس کررہنے لگتی ہیں۔ تب اُس کا حال پہلے سے بھی بُرا ہو جاتا ہے۔ اِس شریر پُشت کا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔“

 یسُوعؔ کی ماں اور بھائی:

  46 جب یسُوع ؔ لوگوں سے یہ باتیں کر ہی رہا تھا تو اُس کی ماں اور بھائی باہر آئے وہ اُس سے بات کرنا چاہتے تھے۔  47 کسی نے یسُوعؔ کو بتایا کہ تیری ماں اور تیرے بھائی تُجھ سے ملنے آئے ہیں۔  48 یسُوعؔ نے خبر دینے والے سے کہا،  ”کون ہے میری ماں؟ کون ہیں میرے بھائی؟“   49 پھر اپنے شاگردوں کی طرف اشارہ کر کے کہا،  ”یہ میری ماں اور میرے بھائی ہیں۔   50  ”کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں وہی میری ماں اور میرے بھائی ہیں۔“